سناؤں کیسے اپنی داستاں کو
ہزاروں غم لگے ہیں ایک جاں کو
کروں کیا لے کے ایسی زندگانی
لگا دو آگ ایسے گلستاں کو
غم دوراں کہاں دیتا ہے فرصت
کروں تعمیر پھرمیں آشیاں کو
جہاں ہنسنے کو ترسیں غنچہ و گل
بنالوں دوست پہلے آسماں کو
ہے شامل اس میں موجوں کی روانی
کوئی روکے گا کیا اردو زباں کو
وشمہ اک بار بھی مڑکر نہ دیکھا
بہت آواز دی عمر رواں کو