دیواروں سے ڈر لگتا ہے
ہر پتھر اک سر لگتا ہے
سناٹے کہرام مچائیں
ہر جانب محشر لگتا ہے
ہر سو رنگ لہو کا چھلکے
مقتل کا منظر لگتا ہے
صدیوں کے فتنے کا امیں ہے
ریزہ ایک نگر لگتا ہے
شام کے عکس میں صبحیں تڑپیں
اور دن خون میں تر لگتا ہے
سنگ و خشت کی تحریروں میں
کمرہ موت کا گھر لگتا ہے
سنگ سنگ پہ دار سجے ہیں
ان پر اک اک سر لگتا ہے