بے ضمیرے نہ کسی طور بھی پالے جائیں
تھام کر ہاتھ یہ اب گھر سے نکالے جائیں
قرض ہم نے جو دیا، کوئی بڑا جرم کیا؟
روز ہی اور کسی روز پہ ٹالے جائیں
اشک تُو نے جو دیئے قیمتی سرمایہ ہیں
تیرے بخشے ہوئے موتی نہ سنبھالے جائیں
ہاں میں جو ہاں کے ہیں قائل وہی محفل میں رہیں
جو مری ضد میں اٹھا لائے حوالے، جائیں
سخت مشکل میں ہیں، اے اہلِ وطن کیا ہوگا؟
روز حالات نئے سانچوں میں ڈھالے جائیں
دل (کہ آسیب زدہ ایک حویلی ہے) مرا
اس کی پہچان (یہی ہوتے ہیں جالے)، جائیں؟
صاحبِ شہر تو آزاد ہر افتاد سے ہے
اور مشکل میں ہمی لوگ ہی ڈالے جائیں
کس ڈھٹائی سے یہ اعلان ہؤا ہے سرِ بزم
گورے رہ جائیں یہاں جتنے ہیں کالے، جائیں
میں جو چپ ہوں تو ہوں انجان ضروری تو نہیں
آپ کے روپ میں ہیں کتنے اجالے؟ جائیں
یاد زندہ ہے تجھے کیسے نکالوں دل سے
ڈوبیں دریا میں تو مُردے ہی اچھالے جائیں
دل میں حسرتؔ ہے مجھے آخری بار آ کے ملو
کیا ملے مجھ کو سکوں، ہونٹوں سے نالے جائیں