سنبھالے جائیں
Poet: رشید حسرتؔ By: رشید حسرتؔ, Quettaبے ضمیرے نہ کسی طور بھی پالے جائیں
تھام کر ہاتھ یہ اب گھر سے نکالے جائیں
قرض ہم نے جو دیا، کوئی بڑا جرم کیا؟
روز ہی اور کسی روز پہ ٹالے جائیں
اشک تُو نے جو دیئے قیمتی سرمایہ ہیں
تیرے بخشے ہوئے موتی نہ سنبھالے جائیں
ہاں میں جو ہاں کے ہیں قائل وہی محفل میں رہیں
جو مری ضد میں اٹھا لائے حوالے، جائیں
سخت مشکل میں ہیں، اے اہلِ وطن کیا ہوگا؟
روز حالات نئے سانچوں میں ڈھالے جائیں
دل (کہ آسیب زدہ ایک حویلی ہے) مرا
اس کی پہچان (یہی ہوتے ہیں جالے)، جائیں؟
صاحبِ شہر تو آزاد ہر افتاد سے ہے
اور مشکل میں ہمی لوگ ہی ڈالے جائیں
کس ڈھٹائی سے یہ اعلان ہؤا ہے سرِ بزم
گورے رہ جائیں یہاں جتنے ہیں کالے، جائیں
میں جو چپ ہوں تو ہوں انجان ضروری تو نہیں
آپ کے روپ میں ہیں کتنے اجالے؟ جائیں
یاد زندہ ہے تجھے کیسے نکالوں دل سے
ڈوبیں دریا میں تو مُردے ہی اچھالے جائیں
دل میں حسرتؔ ہے مجھے آخری بار آ کے ملو
کیا ملے مجھ کو سکوں، ہونٹوں سے نالے جائیں
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






