خلوص و مہر کے سانچے میں ڈھل کے بات کرو
قیودِ عہد سے باہر نکل کے بات کرو
کہا یہ موسیٰؔ سے حق نے کلام کرتے ہوئے
تمہاری ماں نہیں زندہ، سنبھل کے بات کرو
جو توڑنے کا نہیں، پھر تو جوڑ کے رکھ لو
نہ آئے گا وہ یہاں، تم ہی چل کے بات کرو
شکستہ حال تمہارا نہ کر سکے گا اثر
خزاں کی زردیاں چہرے پہ مل کے بات کرو
خفا کیا تھا اسے اب مناتے پھرتے ہو
کہا تھا کس نے تمہیں یوں مچل کے بات کرو
خریدنے ہیں مجھے پھل تمہارے ٹھیلے سے
تو دام کتنے ہوئے سارے پھل کے، بات کرو
منافرت میں حدیں تم نے پار کر لی ہیں
سو میری آنکھوں سے کچھ دور ٹل کے بات کرو
خفا نہ ہونا ابھی تو مریض سویا ہے
کرو نہ شور، ذرا دھیمے، ہلکے بات کرو
جسے خدا نے نوازا، اسے زوال کہاں؟
ہزار کینہ رکھو، کُڑھ کے، جل کے بات کرو
رشیدؔ شعر کی وقعت سے آشنا ہے کون
ملے نہ داد تو تم بھی اچھل کے بات کرو