سنو جاناں
وہ سرد لمبی راتیں بھی گئیں
برسات کی وہ حسیں ملاقتیں بھی گئیں
اب تو بس ہجر کے قصے ہیں
خوشیاں تیرے اور غم میرے حصے میں ہیں
بس اتنا ہی نہیں تھوڑا سا اور سنو جاناں
سیفل جیل پر بلبل اب بھی گنگنتی ہے
چڑیا اب بھی اپنا بین بجاتی ہے
ہر طرف پور نور رونیکی میلے ہیں
بس تیرے جانے کے بعد ہم اج بھی اکیلے ہیں۔
سنو جاناں ۔۔۔۔یہ جداۂی کے لمہے کیسے کٹتے ہیں
وہی انداز پرانا ہے وہی روایت پرانی ہے
تمہاری یاد میں ہر روز شمع جلانی ہے۔
سنو جاناں ۔۔۔کوئی مانے یا نہ مانے یہی پریم کہانی ہے ۔۔،،۔۔یہی پریم کہانی