Add Poetry

سنو یہ غور سے جاناں

Poet: محمد اطہر طاہر By: Athar Tahir, Haroonabad

یہ کیا سمجھ رکھا ہے خود کو؟
یہ کیسے تلخ لہجے میں
تم مجھ سے بات کرتی ہو,
کبھی بے مقصد باتوں پر یوں الجھتی رہتی ہو
کبھی بے معنی لفظوں سے یوں بھڑکتی رہتی ہو
کہ جیسے ہر اک جذبے کو جلا کے راکھ کردو گی
کبھی ہمراہ چلنے پر شرطیں باندھ دیتی ہو
کبھی ملنے کا جو کہہ دیں
تو افسانے سناتی ہو, بہانے سو بناتی ہو
جوازوں کی تقاضوں کی قطاریں باندھ دیتی ہو
یہ بھی کہتی ہو کہ تم بن جینا مشکل ہے
مجھے تم چھوڑ دینے کی تعلق توڑ لینے کی
کبھی تم بات کرتی ہو,
تو سن لو غور سے گڑیا
تعلق ٹوٹ جانے سے
وقت ٹھہر نہیں جاتا, کوئی مر نہیں جاتا
مجھے تیری محبت میں محبت ہی نہیں لگتی
فقط اک بوجھ لگتی ہے, اک تجارت لگتی ہے,
میری تم واقف ہی کب ہو ؟
چلو تم کو بتاتے ہیں
تیری دنیا دکھاتے ہیں
تیرے جیسی حسینائیں میرے قدموں پہ چلتی ہیں,
میرے ناز اٹھاتی ہیں, میری راہیں سجاتی ہیں,
کہیں اک پَل جو ٹھہروں تو
یوں پھسلتی آتی ہیں جیسے پھول پر تتلیاں منڈلاتی ہیں,
لہجوں میں نزاکت, لفظوں میں چاہت
ہونٹوں پہ خواہش کی پیاس لے کر
آنکھوں میں محبت کی آس لے کر
یوں لپکتی آتی ہیں
جیسے بلبلیں گلشن میں چہچہاتی ہیں
کبھی نظریں اٹھاؤں تو
یوں مچلتی ہیں جیسے
خوشیاں مل گئی ہوں دونوں جہانوں کی
کبھی نظریں جھکاؤں تو
یوں مرجھا سی جاتی ہیں جیسے
کہ دنیا چھن گئی ان کی, پیاسی ہیں زمانوں کی,
مگر... یہ کیسے زعم میں ہو تم؟
یہ کیسا وہم ہے تم کو؟
کہ تم ہی میری دنیا کا آخری کنارہ ہو؟
کہ تم ہی میرے جینے کا واحد سہارا ہو؟
کہ تم بن سو نہیں سکتے
کسی کے ہو نہیں سکتے؟
تیرے لفظوں, تیرے لہجے کی زد میں
کبھی جب میں آتا ہوں
تو رستہ بدلنے پر بہت کچھ سوچ لیتا ہوں
تیری ایسی ادائیں ہیں
جو مجھ کو مجبور کرتی ہیں,
سنو... یہ غور سے جاناں
اگر ہم ٹھان ہی بیٹھے, جدائی مان ہی بیٹھے
تو جاناں بہت پچھتاؤ گی
تب آنسو بہاؤ گی, مجھے رو رو کے دکھاؤ گی
میرے قدموں سے لپٹو گی
جدائی ٹھان ہی لی تو, مجھے تم روک نہ پاؤ گی,
میری طبیعت میں ہے یہ خصلت
جو لو محبت تو دو محبت
کسی کے ہونا تو پورے ہونا
ادھورا رکھنا نہ ادھورا ہونا
سنگ جس کے چلنا اسی کا ہو کے جینا
نہ شوق نمائش نہ ذوق آرائش
نہ کوئی دکھاوا نہ کوئی پچھتاوا
نہ کوئی منافع نہ کوئی خسارا
ہو جو کچھ ہمارا اسی کا ہو سارا
اس کا ہو جو کچھ وہ سارا ہمارا
نہ شرط محبت, نہ شرط تمنا
نہ کوئی افسانہ نہ کوئی بہانہ
تو پھر چاہے دشمن ہو سارا زمانہ
سنگ ہی جینا سنگ ہی مرنا
اے میری چار دن کی رفاقت...
جذبوں میں تیرے نہیں ہے صداقت
اگر یہ محبت کا ہے وقت رخصت
تو لوٹا دو مجھ کو میرے وعدے قسمیں
معصوم جذبے وہ محبوب رسمیں
مبارک ہو تم کو تمہاری ادائیں
جوازوں تقاضوں کی ساری بلائیں,
غرور و تکبر وہ لفظوں کا محشر
وہ کڑکتی بجلی وہ لہجے کی تلخی
بے نور صبحیں وہ بے چہرہ شامیں
وہ نوکیلی باتیں وہ زہریلی راتیں
مبارک ہو تم کو تمہاری سوغاتیں

Rate it:
Views: 736
18 Feb, 2016
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری
ترے قصہ کے پیچھے پیچھے ہوگی داستاں میری
کریں گی دیکھیے الفت میں کیا رسوائیاں میری
جہاں سنئے بس ان کا تذکرہ اور داستاں میری
قیامت میں بھی جھوٹی ہوگی ثابت داستاں میری
کہے گا اک جہاں ان کی وہاں یا مہرباں میری
بہت کچھ قوت گفتار ہے اے مہرباں میری
مگر ہاں سامنے ان کے نہیں کھلتی زباں میری
قیامت کا تو دن ہے ایک اور قصہ ہے طولانی
بھلا دن بھر میں کیوں کر ختم ہوگی داستاں میری
وہ رسوائے محبت ہوں رہوں گا یاد مدت تک
کہانی کی طرح ہر گھر میں ہوگی داستاں میری
سناؤں اس گل خوبی کو کیوں میں قلب کی حالت
بھلا نازک دماغی سننے دے گی داستاں میری
کہوں کچھ تو شکایت ہے رہوں چپ تو مصیبت ہے
بیاں کیوں کر کروں کچھ گو مگو ہے داستاں میری
اکیلا منزل ملک عدم میں زیر مرقد ہوں
وہ یوسف ہوں نہیں کچھ چاہ کرتا کارواں میری
یہ دل میں ہے جو کچھ کہنا ہے دامن تھام کر کہہ دوں
وہ میرے ہاتھ پکڑیں گے کہ پکڑیں گے زباں میری
پھنسایا دام میں صیاد مجھ کو خوش بیانی نے
عبث پر تو نے کترے قطع کرنی تھی زباں میری
نہ چھوٹا سلسلہ وحشت کا جب تک جاں رہی تن میں
وہ مجنوں ہوں کہ تختے پر ہی اتریں بیڑیاں میری
مشبک میں بھی تیر آہ سے سینے کو کر دوں گا
لحد جب تک بنائے گا زمیں پر آسماں میری
محبت بت کدہ کی دل میں ہے اور قصد کعبہ کا
اب آگے دیکھیے تقدیر لے جائے جہاں میری
بھلا واں کون پوچھے گا مجھے کچھ خیر ہے زاہد
میں ہوں کس میں کہ پرسش ہوگی روز امتحاں میری
تصدق آپ کے انصاف کے میں تو نہ مانوں گا
کہ بوسے غیر کے حصے کے ہوں اور گالیاں میری
مصنف خوب کرتا ہے بیاں تصنیف کو اپنی
کسی دن وہ سنیں میری زباں سے داستاں میری
فشار قبر نے پہلو دبائے خوب ہی میرے
نیا مہماں تھا خاطر کیوں نہ کرتا میزباں میری
قفس میں پھڑپھڑانے پر تو پر صیاد نے کترے
جو منہ سے بولتا کچھ کاٹ ہی لیتا زباں میری
وہ اس صورت سے بعد مرگ بھی مجھ کو جلاتی ہیں
دکھا دی شمع کو تصویر ہاتھ آئی جہاں میری
ہر اک جلسے میں اب تو حضرت واعظ یہ کہتے ہیں
اگر ہو بند مے خانہ تو چل جائے دکاں میری
طریقہ ہے یہی کیا اے لحد مہماں کی خاطر کا
میں خود بے دم ہوں تڑواتی ہے ناحق ہڈیاں میری
پسند آیا نہیں یہ روز کا جھگڑا رقیبوں کا
میں دل سے باز آیا جان چھوڑو مہرباں میری
ہزاروں ہجر میں جور و ستم تیرے اٹھائے ہیں
جو ہمت ہو سنبھال اک آہ تو بھی آسماں میری
یہ کچھ اپنی زباں میں کہتی ہیں جب پاؤں گھستا ہوں
خدا کی شان مجھ سے بولتی ہیں بیڑیاں میری
بنایا عشق نے یوسف کو گرد کارواں آخر
کہ پیچھے دل گیا پہلے گئی تاب و تواں میری
پڑھی اے بزمؔ جب میں نے غزل کٹ کٹ گئے حاسد
رہی ہر معرکہ میں تیز شمشیر زباں میری
 
ناصر
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets