سورج سے کہہ دو اب شام کر دے
تھک گیا ہوں بہت سفر تمام کر دے
کہاں ہے کس حال میں ہے
خدا کچھ اس بارے الحام کر دے
مجھے پیمانوں سے پینا نہیں آتا
قسمت کے ہر قطرے کو جام کر دے
بہت شہرت کما لی میں نے
آ اور آ کے بد نام کر دے
گزرے گا اسی راہ سے وہ نجم
ہوسکے تو نظر جھکا کے سلام کر دے