سوزشِ دل سے مفت گلتے ہیں
داغ جیسے چراغ جلتے ہیں
اس طرح دل گیا کہ اب تک ہم
بیٹھے روتے ہیں، ہاتھ ملتے ہیں
بھری آتی ہیں آج یوں آنکھیں
جیسے دریا کہیں اُبلتے ہیں
دمِ آخر ہے بیٹھ جا ، مت جا
صبر کر ٹک کہ ہم بھی چلتے ہیں
تیرے بے خود جو ہیں سو کیا چیتیں
ایسے ڈوبے کہیں اُچھلتے ہیں!
فتنہ در سر، بتانِ حشر خرام
ہائے رے کس ٹھسک سے چلتے ہیں
نظر اٹھتی نہیں کہ جب خوباں
سوتے سے اُٹھ کے آنکھ ملتے ہیں
شمع رُو موم کے بنے ہیں مگر
گرم ٹک ملیے تو پگھلتے ہیں
میر صاحب کو دیکھیے جو بنے
اب بہت گھر سے کم نکلتے ہیں