وہ معصوم فرشتے
وہ آگ برساتی مشین
وہ بہتا لہو
وہ بے بسی باپ کی
وہ دہائی ماں کی
وہ کل ہمارا
خون میں لت پت
دم توڑتی انسانیت
آسمان بھی رویا ہوگا
وہ ان کی معصوم خواہشیں
آنکھوں کے خواب
ہر شے لہو لہو
کائنات بھی سرخ
جیسے ماں کا کلیجہ منہ کو آیا ہوگا
کیسے باپ نے معصوم لاش اٹھائی ہوگی
وہ کتابوں کے لہو لہو الفاظ
نوہا کرتی کاپیاں
ماتم زدہ ان کے سکول بیگ
ان کے ننھے دماغ سوال پوچھتے
عیدِ قربان تو نہیں
پھر ہماری قربانی کیونکر
پھر کسی نے پکارا
وطن کی مٹی لہو مانگتی ہے
پھر مسکرائے ہوں گے
لے لو جتنا بھی چاہیے
یہ لہو ہمارا سبھی
یہ خدا کی مرضی
یہ ہمارے بڑوں کی اگائی فصل
کاٹ رہے آج ہم
میرا یونیفارم نہ خراب کرنا
میں سکول کبھی لیٹ نہ ہوا
پھر یہ تو خدا کا بلاوا ہے
سنو! فرشتے مرتے نہیں
میری ماں کو دلاسا دے دینا
میں ہوں شہید
ماں شہید کبھی مرتے نہیں
ہاں جنت کے باغوں میں ہیں ہم
ماں مجھے تیری قسم
یہ جھوٹ نہیں سچ ہے
میں آج بھی شرارت کرتا ہوں
فرشتے کبھی نہیں ڈانتے ماں تیری قسم
قسم ماں تیری قسم
سدا سلامت رہے میرا چمن
کیا ہوا جو آج نہیں ہیں ہم
جان سے بڑھ کر کیا دیتے ہم
اے میرے وطن! سن لو
دیکھنا اب ناں آئے کوئی ایسے زخم
میں آج بھی زندہ ہوں ماں تیری قسم