سوچ کی رہ گزر سے آگے ہیں
اس لئے راہبر سے آگے ہیں
سلسلہ ہے سفر کا اتنا دراز
بحر و بر خشک و تر سے آگے ہیں
رات ڈھلنے کی خوشی یوں مت منا
معرکے اب سحر سے آگے ہیں
منظروں پر یقین حالات سے سمجھوتہ
سارے منظر نظر سے آگے ہیں
ٹھوس باتوں پر ہے یقین اپنا
ہم اگر اور مگر سے آگے ہیں
ہم جو پیچھے ہیں کچھ سبب بھی ہے
آپ تو شور و شر سے آگے ہیں