سوچتا ہوں سدا میں زمیں پر اگر کچھ کبھی بانٹتا
تو اندھیروں کے نزدیک جاتا انہیں روشنی بانٹتا
تیرے ہوتے ہوئے ہم تجھے ڈھونڈتے پھر رہے تھے عزیز
کاش تو ہر گھڑی ہر جگہ ہم سے موجودگی بانٹتا
خالقا مجھ کو معلوم ہوتا اگر آخری موڑ ہے
میں بچھڑتے ہوئے سارے کردار کو زندگی بانٹتا
وقت نے بیڑیاں ڈال رکھی تھیں پاؤں میں ورنہ تو میں
شہر کی ساری گلیوں کو ہر وقت آوارگی بانٹتا
میرے بھائی اگر درمیاں اپنے دیوار اٹھتی نہیں
تیرا دکھ بانٹتا اور تجھ سے میں اپنی خوشی بانٹتا
مجھ کو کمرے کی دیوار کھڑکی کلینڈر سمجھتے تھے بس
اور کوئی نہیں جن سے میں اپنی افسردگی بانٹتا
جو اذیت کے خانے میں اب رکھ رہے ہیں محبت کو کاش
عشق ہونے سے پہلے انہیں میرؔ کی شاعری بانٹتا