شامِ فقیراں جو گزری تو آنکھ بھر آئی بہت
صبح جمعہ کو بھی تیری یاد آئی بہت
پوچھا جو یارانِ محفل نے برسات کا عالم
بے وجہ بارشوں سے میں گھبرائی بہت
کوئی اور کام کہاں اس عشق ناتمام کے سوا
اُس کی اس بات پہ میں شرمائی بہت
طوفانِ ساحل کو چیر کر مجھے اُس پار جانا ہے
اس دل لگی پہ اپنی میں ڈگمگائی بہت
اک وہ وقت تھا ہم پہروں جاگا کرتے تھے
پھر قسمت نے ٹھکرایا اور نیند آئی بہت
ہم نے ایک دوسرے کو ٹھکرا دیا اپنی اپنی انا میں
سوچو میری جان اس بات میں ہے رسوائی بہت