سوکھے پتے یادوں کے فضاؤں میں بکھرے ہوں گے
کچھ کرچی سپنے آنکھوں کے پیروں میں چبھے ہوں گے
کچھ خط ادھوری چاھت کے راکھ بن گئے ہوں گے
کچھ پل میٹھی ملاقاتوں کے آنسوں میں بہہ گئے ہوں گے
کچھ وعدے اپنی محبت کے خوابوں میں ٹوٹے ہوں گے
کچھ راستے اپنی منزل کے کہیں اور ہی مڑے ہوں گے
کچھ دیر کیلئے سب کو سمیٹ لینا
شاید کہ ہم زندگی میں کبھی تو ملے ہوں گے
ہماری بے وفائی کو یوں تم سوچتے ہوں گے
کیا تمہارے خط ہم تک پہنچتے ہوں گے
یہی بات اکیلے میں تم خود سے پوچھتے ہوں گے