سُنو تو آج میرے سب نفیس خواب ادھورے رہ گئے
میرےجِگر کے ٹُکڑےمَکتب گے تھے مکتب ہی رَہ گئے
کر گئے وہ وطن پہ اپنے جانوں کا نظرانہ پیش یہ فخر کافی ہے
پر میرا آنے والا کَل تھے جو میرا گزراہ ہوا ماضی رہ گئے
کِس کو کہوں اب کس کو پکاروں گھر جلدی آنا میرا بیٹا
میری گود کی زینت تھے بن کر ڈھیرمٹی کا قبرستاں ہی رہ گئے
کافر کی اُولاد پھولوں کو مَسل کر تم کِس جنت کی بات کرتے ہو
گودیں اُجھاڑ کر جنت کی تم کافر تھے اور کافر ہی رہ گئے
کتنی ازیتں جِھیل کر وہ بشارتِ جنت پانے آئے کافر ہو کر مر گئے
ننی سی جانیں تھی ابھی دو قدم چل کر گیے تھےبشارت پا گئے
دُشمن کرتا راہا ظُلم آنکھیں بوچھاڑ کر کے میرے معصوموں پر
خوصلہ میرے شیروں کا وطن کی خاطر ظُلم چُپ چاپ سہہ گئے
اے ا لله دے توفیق ماؤں کو ہماری یہ ازیت بردشت کر سکیں وہ
مان تھے مجسف زندگی کا جو مکتب گے تھے مکتب ہی راہ گئے