سُوکھے درختوں کے نیچے مجھے سُلا کر چھوڑ گیا
وہ عجب شخص تھا ہمیں سپنا دکھا کر چھوڑ گیا
یہ جو اُجَڑا ہوا گھر اِسی شخص کی تو نشانی ہے
جو اپنے نام کی تختی لگا کر اِس گھر کو چھوڑ گیا
ہم تو ہمیشہ سے کرتے ہیں انتظار اِس کا رات دن
جو اب اِس دل میں اپنی یادیں بسا کر چھوڑ گیا
یہ اب کیسا امتحان ہے میری زندگی میں مسعود
جس سے ہم نے محبت سیکھی وہ تنہا چھوڑ گیا