تجہ کو دیکھا تو دل یہ چاہا کہ
اور قریب تجھے کر لوں
اور تیری بھیگی زلفوں سے
اس دامن دل کو تر کر لوں
پھر دیکھتے ہی تجھ کو میں نے
کئی سپنوں کے ایواں تعمیر کیے
تو جن میں تھی میرے سنگ سنگ
اور جو تیری مترنم ہنسی سے
گونج اٹھے تھے
سوچا، ان لمحوں کو میں
جامد کر لوں ساقط کر لوں،
اور تجھ کو چھپا لوں سب سے میں
کہ تو کہیں نہ چھن جائے
اچانک اک چھناکے سے
سب کو اب میرے پھر ٹوٹ گئے
اور تو جس پر دل آیا تھا
موجود نہ تھی، غائب تھی کہیں
اور تیری بھیگی زلفوں سے
ٹپکے ہوئے بوندوں کے موتی
کاک میں جا سوئے تھے کہیں