بری عادت مجھے سچ بولنے کی
بناوٹ کی حقیقت کھولنے کی
کوئی جیسا بھی چاہے شعر کہہ لے
مجھے آخر پڑی کیا تولنے کی
کھلا ہے فن سبھی کا دھیرے دھیرے
ضرورت ہی نہیں کچھ بولنے کی
بہت ہو لی کمائی معصیت کی
گناہوں میں ذرا سی گھول نیکی
پڑا پھندہ گلے میں گیسووں کا
بڑی خواہش تھی آفت مولنے کی
سنی جاتی کہاں ہے اپنی کوئی
مری مرضی ہے، مرضی "ڈھولنے" کی
ہمارا ملک تھا خود دار حسرتؔ
بڑی رسوائی پھر کشکول نے کی