سکوں نہ میری حیات میں
پل رہی ہے آفات میں
مقدروں سے تھکا ہارا
میں پڑا رہا کائنات میں
موت کے آگے کیا ہے زندگی؟
پر رہی نہ اپنی اوقات میں
میں تو شہنائی سے ڈر گیا
گیا جو اک بارات میں
میں نے بھی راز اُگل دیا
بات ہوئی جب بات میں
مجھے معاف کرنا خُدایا
کیا کیا کہہ گیا جذبات میں