سہارے ڈھونڈنے نکلا تھا میں سہارے کھو گئے میرے
لب ساحل جو پہنچا ہی تھا تو کنارے کھو گئے میرے
نبھانے کو بھی بڑے بڑے آئے اور چلے بھی ساتھ جو
مجھے تھی آرزو جن کی وہ ہی پیارے کھو گئے میرے
گیا تھا میں آسماں پر بھی مقدر ڈھونڈنے اپنے لیکن
چاند بھی بہت رویا چھپا کے منہ ستارے کھو گئے میرے
چمن اب بہت خوبصورت بھی ہو میرے کس کام آئے گا
تھی چاہت جن کی آنکھوں کو وہ نظارے کھو گئے میرے
کہیں سے بھی ڈھونڈ کر لاؤ میری تم گزری جوانی کو اب
تھے جواں جذبے جوانی میں ہی سارے کھو گئے میرے
دردِ غموں نے چھین کر مسعود میرا تو بچپن ہی مٹا ڈالا اب
ابھی تھے کھیلنے کے دن اور غبارے ہی کھو گئے میرے