رسوائیاں وفا کی مرے نام کر گئی
اک لہر تھی جنوں کی جو بدنام کر گئی
سازش تھی دوستوں کی بڑا کام کر گئی
اک کامیاب شخص کو ناکام کر گئی
تجھکو خبر نہیں ہے مجھے تیری دید کی
کس درجہ بے سکون وہ اک شام کر گئی
مانا کہ کھل گئے ہیں چمن میں کئی گلاب
فصل بہار خار بھی تو عام کر گئی
دولت ملی کرم کی ، تو جگ، تیرا کیا رہا
اک چام سے بھی کم ہے ترا دام کر گئ
نااتفاقیوں سے کہیں کے رہے نہ تم
سینے میں تھے جو راز وہ پیغام کر گئی
میرے ہنر میں تیرے تقاضوں کا کیا کروں
وشمہ کی سادگی تجھے بےنا م کر گئی