شائد کہ زندگی کا قرینہ بدل سکھے
شائد وہ میرے ہوکے رہیں مجھ سے دور دور
شائد محبتوں کا نظریہ بدل سکھے
شائد وہ غیر ہوکے رہیں میرے آس پاس
شائد کہ رشتے ناتوں کا مطلب بدل سکھے
اپنا ہی خون لگنے لگے اپنا خون ہی
شائد کہ پھر خدائی سے ناراض ہو خدا
یا برق یوں ہی بپھری ہوئی ہو مگر ذرا
ممکن ہے تیز چلنے لگی ہو یونہی ہوا
ممکن ہے اس کو بھی تری آمد کا ہو پتا
ممکن ہے پھول یونہی کھل اٹھیں ہوں بے وجھ
یا مٹی کی بجھی ہو میرے آنسوؤں سے پیاس
شائد کہ پھر دھڑکنے لگا ہو کسی کا دل
شاید کہ پھر بہار میں مرجھا گئے ہوں پھول
سینے پہ رکھ سر مرے سرگوشیاں کرو
دنیا جو سامنے ہو تو دنیا سے لڑمرو