زمیں بنجر ہو تو بارش سے یہ شاداب ہو جائے
تیری پر خار بگیا پھر سے گل آباد ہو جائے
دھواں ہوتا ہوا منظر، غبار آلود سب راہیں
یہ جو بھی جھٹپٹا سا ہے، سبھی شفاف ہو جائے
فکر دنیا اور تنہائی، یوں لمحہ بھر کو ہو جائے
میں محو خواب ہو جاؤں، سکوت یک ساز ہو جائے
فضا میں اڑتے پھرتے بادلوں کا جھنڈ وجہ مینہہ
دیدہء نم بوجہ گردش حالات ہو جائے
نگاہیں جب کبھی اپنے میں گم سامان دیکھیں تو
کبھی مٹی، کبھی پتھر، کبھی پانی سا ہو جائے
تو کیسا ہے، کسے معلوم ؟ میں تجھ کو دیکھنا چاہوں
نظر اٹھے تو مجھ کو کاش یہ الہام ہو جائے
زمیں بنجر ہو تو بارش سے یہ شاداب ہو جائے
تیری پر خار بگیا پھر سے گل آباد ھو جائے