شاعر صاحب
تم نے کہا تھا
”چاہت میں کیا دنیا داری، عشق میں کیسی مجبوری“
اس کا ٹوٹا ہوا دل دیکھو
رخساروں پر بہتے آنسو
ان آنکھوں میں ٹھیرے آنسو
ان آنکھوں میں
اس کے نیر اور میرے آنسو
سینے میں ہر اٹکی سسکی
پھانس کی جیسی چبھتی سسکی
دیکھتے ہو تم
سنتے ہو تم
عشق کی راہ میں حائل تھے سب
مذہب، لوگ اور ذمے داری
ساری دنیا، دنیا داری
اس مجبور نے، اس بے بس نے
بند دریچہ کرکے اپنا
اور خود کو دیوار میں چُن کر
اپنے نازک سے ہاتھوں سے
قسمت کے پَنوں پر لکھا
دوری، دوری، دوری دوری
اس کے اشکوں نے لکھا ہے
شاعر! تم نے جھوٹ کہا ہے
عشق محبت میں چاہت میں
ایسی ویسی دنیاداری
ایسی ویسی مجبوری