شام ڈھلنے کا کتنا خاموش نظارہ تھا
میں، میری تنہائ اور سماں پیارا تھا
تھپکیاں دیتی ٹھنڈی ہواکےجھونکے
لہروں کی ترنم اور ریت بھراکنارہ تھا
گزرے دنوں کی یادوں میں گم سم
کھلی آنکھوں سپنوں کاسہارا تھا
تاریکی کی لپیٹ میں تھی شوخ لالی
مڑ کر جو دیکھاتو سایہ بھی آوارہ تھا
چونکا دیاپرندوں کے شوروغل نے
چلو اٹھو کمر باندھو یہ اشارہ تھا
تب گھر کو لوٹنے کی فکر نے آلیا
ڈوبتے سورج کی جگہ اک ستارہ تھا
اب وقت تھا کم اور منزل تھی دور
فقط چاند کی چاندنی پہ گزارا تھا