شام کے سانولے چہرے کو نکھارہ جائے
کیوں نہ ساگر سے کوئی چاند ابھارا جائے
راس آیا نہیں تسکین کا ساحل کوئی
پھر مجھے پیاس کہ دریا میں اتارا جائے
مہربان تیری نظر تیری ادائیں قاتل
تجھے کس نام سے اے دوست پکارا جائے
مجھ کو ڈر ہے تیرے وعدے پہ بھروسہ کر کے
مفت میں یہ دل خوش فہم نہ مارا جائے
جس کہ دم سے میرے دن رات درخشاں تھے قتیل
کیسے اب اس کہ بنا وقت گزارا جائے