شام کے وقت چراغوں کا حوالہ بھی تو ہو
دیدہء ترہوں کوئی دیکھنے والا بھی تو ہو
ایک امید مرے سپنے میں قائم ہے ابھی
تیرہ دنیا میں مھبت کا اجالا بھی تو ہو
میں اکیلی ہوں ترے بعد دیارِ جاں میں
تیری یادوں کا مرے واسطے ہالہ بھی تو ہو
میں تو حق بات کی قائل ہوں زمانے بھر میں
میرے ہونٹوں کے لیے ضبط کا تالا بھی تو ہو
ہر طرف چہرے نظر آتے ہیں مصنوعی مجھے
ان سفیدوں میں کوئی رنگ کا کالا بھی تو ہو
ہر سہولت تو ترے پاس ہے لیکن وشمہ
تیری قسمت میں یہ عزت کا نوالہ بھی تو ہو