راحت وصل نہ پائی میں نے
کاٹی ہمیشہ تنہائی میں نے
جس کو پرکھا وہی نکلا فریب کار
یوں ہر جا منہ کی کھائی میں نے
مرنے سے پہلےہیں کفن میں لپٹے
حنا ہی کچھ ایسے رچائی میں نے
تھی زندگی سیدھی سادھی سی
خود کانٹوں سے الجھائی میں نے
کوس لیا قسمت کو مٹا لیا ہر غم
نہ دی تیرے ظلم کی دہائی میں نے
کوئی نہیں قابل سخن کہوں حال دل
خاموش راہ اس لیے اپنائی میں نے
تا زندگی رہیں گے ہونہی در بدر
قیافہ نہیں حقیقت سنائی میں نے
مر گیا ہے دل یاس میں ڈوب کر
ہر شوق ہر تمنا دفنائی میں نے
صحرا میں جیسے فریب نخلستان
شاہین عمر ایسے بتائی میں نے