اے دل تو کیوں مضطرب رہنے لگا ھے
تیری ہر دھڑکن پہ کس کا
قبضہ ھونے لگا ھے
سرد مزاجی کے بادل چھٹنے سے
لگے ہیں
اک تیرا نام کیا لیا ،کمال مجھ میں
ابھرنے لگے ہیں
جب سے تو دل کی بستی میں ہے
کائنات کی ہر شے مستی میں ہے
اوراق دل پہ جب سے تیرا نام
لکھا ہے
قلم بھی رواں ہونے لگا ہے
پھر بھی یہ کیسا کرب ہے
کتنا پر درد مگر سچ ہے،
اس بے بسی کا اپنا ہی مزا ہے
دل سے صدائیں آتیں ہیں
لب خاموش مگر
آنکھیں پانی ہو جاتی ہیں
کیا کروں کیا نہ کروں
اب چلوں یا رکوں
روؤں یا ہنسوں
جیوں یا مروں
حالت گومگو
سب کس سے کہوں
کاش مجھے لے وہ سمجھ
جو ہے بےخبر
کاش میرے دل کی رکھےکچھ تو خبر
میری زندگی بھی عجیب کتاب ہے
تو اس کا پہلا مگر دلچسپ باب ہے
تیرے ہی خیالوں میں کھونے لگی ہوں
بات بات پہ سلگنے لگی ہوں،
سسکنے،رونے لگی ہوں
خود ہی روٹھنے،ماننے لگی ہوں
اب تو ہی بتا اے رہبر شاہین
یہ کیسی شناسائی ہے
کہ میری جان پہ بن آئی ہے