شاید کوئی نہیں با آرام کفالتی پہروں کے پیچھے
بڑی الجھنیں ہیں آج بھی خاموش چہروں کے پیچھے
ہم یکتا زندگی میں واجبیت کے ہاں دوڑتے رہے
بہت لٹادی ہیں ایسی حسرتیں یوں غیروں کے پیچھے
یہاں اجڑے دلوں سے گذر کر لوگ مکان دیکھنے آئے
اب بھی کہانیاں بے انصاف ہیں ان دیروں کے پیچھے
کناروں سے ٹکرنا لوٹنا کوئی تخمینہ نہیں گہرائی کا
چھپی ہیں اور شدتیں ان اٹھتی لہروں کے پیچھے
بہت بدمستی ہے آج بھی تردید کے نام پر
کیوں سرکشی بھاگ رہی ہے ان بہروں کے پیچھے
زندگی کی تجدید کے لئے ہماری تو کوئی عدالت نہیں
وقت تو تیر چھوڑ دیتا ہے ان فراروں کے پیچھے