اج شب پھر کوئی بچہ فاقے سے سویا ہے
پھر اک بے بس باپ خون کے آنسو رویا ہے
سیاست کے دیوانوں سے اک مزدور گویا ہے
ہڑتالوں نے کیا دیا ہے کیا پایا کیا کھویا ہے؟
غربت کے ماروں نے پھر بوجھ نیا اک ڈھویا ہے
حالت یہ ہے مہمانوں کی آمد پر سفید پوش رویا ہے
لیکن فکروں سے آزاداور چین سے کب وہ سویا ہے
بس سوچوں میں رہتا ہے گم سم کیا کاٹا؟کیا بویا ہے؟
اس شہر میں بسنے والوں نے خون کو اپنے دھویا ہے
قاتل مقتول کے جنازے پہ اکر زور سے رویا ہے
انصاف تو اندھا ہے اور کہنے کی ہمت کس میں
میرے شہر کو میرے لہو میں تم نے ہی تو بھگویا ہے