شب غم دل کی بے چینی کو سہارا نہ ملا
آنکھ برسی تو اشکوں کو کنارہ نہ ملا
یہ ہے الفت کی عطا کہ ابھی زندہ ہیں
ورنہ ہو کے رخصت دنیا سے کوئی دوبارہ نہ ملا
تیری آنکھوں نے کیا دلوں پر عجب جادو
کہ ڈھونڈنے والوں کو کوئی تشبیہ کوئی استعارہ نہ ملا
ہم کو یہ غم نہیں کہ لٹے برباد ہوئے
رنج تو ہے کہ دل واپس ہمارا نہ ملا
اس طرح بند ہوئے دروازے وصال کے ہم پر
پھر کوئی ساتھی کوئی ہمدم کوئی پیارا نہ ملا
میں وہ قیدی ہوں جو آزاد نہیں ہو سکتا
زلف کے بل میں تو محشر کا نظارہ نہ ملا