شب فراق میں تاروں نے اہتمام کیا
سجائی یادوں کی محفل و تیرا نام لیا
ترے خیالوں سے اب لمحہ بھر نہیں فرصت
تجھے ہی یاد کروں کیسا تو نے کام دیا
نہ بھر سکے ، کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی
تری جدائی کے زخموں کو صبح شام سیا
پھر اس کے بعد مجھے زہر رنج پینا پڑا
جو تیری آنکھوں سے اک بار میں نے جام پیا
جو تیرے در پہ پہنچ کر بھی خالی ہاتھ رہا
وہ شخص راہوں میں مرتے ہر ایک گام جیا
ہوں منتظر ترے آنے کا اس ویرانے میں
جلا دیا ہے یہاں آج سر شام دیا