شب فراق کے لمحوں سے کوئی یہ کہہ دے
وصل کے دن ہیں مجھے یاد بھی نہ آیا کریں
میری نیندوں میں آکے مجھ کو جگایا نہ کریں
میرے خوابوں میں آکے مجھ کو ستایا نہ کریں
شب فراق کے لمحوں سے کوئی یہ کہہ دے
وصل کے دن ہیں مجھے یاد بھی نہ آیا کریں
پھول ہی پھول میرے راستوں میں کھلنے لگے
ہجر کے گیت میرے سامنے گایا نہ کریں
شب فراق کہ لمحوں سے کوئی یہ کہہ دے
وصل کے دن ہیں مجھے یاد بھی آیا نہ کریں
میرے اطراف میں جو روشنی کا ہالہ ہے
اندھیرے میری روشنی کو ڈرایا نہ کریں
شب فراق کہ لمحوں سے کوئی یہ کہہ دے
وصل کے دن ہیں مجھے یاد بھی نہ آیا کریں
میں جو تصویر حسیں رنگوں سے بنائی ہے
اسے گمان کے پانی سے مٹایا نہ کریں
شب فراق کہ لمحوں سے کوئی یہ کہہ دے
وصل کے دن ہیں مجھے یاد بھی آیا نہ کریں
میری وفا نے جو شمع فروزاں کردی ہے
اسے طوفانی ہواؤں سے بجھایا نہ کریں
شب فراق کہ لمحوں سے کوئی یہ کہہ دے
وصل کے دن ہیں مجھے یاد بھی نہ آیا کریں