شب گئے کوئی یاد آیا دیر تک
جس نے اپنے دل کو ستایا دیر تک
جان کے درپے تھا غم کیا کہوں
خون آنکھوں نے برسایا دیر تک
یا محبت جرم تھی یا خطا کوئی
ہنوز یہ دل سمجھ نہیں پایا دیر تک
زندگی کا اپنی کوئی حاصل نہ رہا
خاک ہم نے کچھ کمایہ دیر تک
ہم اس کو اپنا بناتے رہہ گئے
اتنے میں وہ ہو گیا پرایا دیر تک
وہ کسی سورت نہ اپنا بن سکا
جس کے پیچھے سر کھپایا دیر تک
دل کو چڑہا ھے پھر سے عشق کا بخار
شدت حرارت نے ھے دل کو تپایا دیر تک
جو نظر چڑھ گیا اسد اس شوخ کی
وہ کسی سورت بچ نہیں پایا دیر تک