بوند بوند آنسو
دیوارِ دل پہ بہہ رہے ہیں
نظر نظر پُر آب ہے
شبنم بھی دم بخود سرِ گلاب ہے
تیرے غم کو ثبات ہے
یہ سدا کا پُر شباب ہے
جب سُونے افق پہ سورج ابھرے
اور اندھیارے کی چادر میں
اُجلے چھید پڑ جائیں
وقت اپنا پہلو بدلے
تب یاد ایک اور گذری ہوئی
ہجر کی کالی رات کی
مجھ کو بہت رُلاتی ہے
میری ہر صبحِ ملال کی جلن
میری ہر شبِ آشوب کی چبھن
میرے اندر دور تک طلوع ہو جاتی ہے