نظر میں چھوڑتے جاتے ہیں تِیرگی آنسو
بہے بے مول کیوں جاتے ہیں قیمتی آنسو
رُخِ گلاب سے ٹپکے جو اضطرابی میں
زمین پی گئی وہ سارے شبنمی آنسو
شبِ پونم میں چمکتے ہیں موتیوں کی طرح
شبِ فراق میں دیتے ہیں روشنی آنسو
کوئی بھی حال ہو رہتے ہیں شاملِ موضوع
مزاجِ آدمی کیا ہے خوشی غمی آنسو
بہت چاہا کہ میرا بھید نہ کُھلے اُن پر
بس اُنہیں دیکھ کر بہنے لگے خودی آنسو
ہو اپنےآنسووں سے کیوں نہ رضامند گوہر
کہ میرے حال کی کرتے ہیں راہبری آنسو