شدتِ درد سے ٹوٹ کر بِکھر جائیں گے
ہم گُھٹ گُھٹ کے اک روز مر جائیں گے
دستِ نازک سے اگر تُو رکھ دے مرہم
میرے اُبھرتے ہوئے زخم بھر جائیں گے
جو خدمتِ خلق کرتے رہے وہ روزِ محشر
مانندِ برق پُل صراط سے گُزر جائیں گے
قید سے مانوس ہو چُکے ہیں اے صیاد
درِ قفس نہ کھول پرندے مر جائیں گے
تم اپنا آئینہ دل صاف کر لو امر
بِگڑے ہوئے حالات سنور جائیں گے