شعر کب ہوتا ہے غزل کب ہوتی ہے
جب خون جلتا ہے پرنم آنکھ ہوتی ہے
بے ثباتیٴ جہاں کی پرواہ نہیں کرتے
جن کی تلخیوں میں صحرا کی پیاس ہوتی ہے
شام آغوش_ تنہائی میں سمٹ جاتی ہے
جب رات ڈرتے ڈرتے سحر ہوتی ہے
جب کوئی لمحہ چھیڑتا ہے دل کے تار
درد کی لہروں پہ چودویں کی رات ہوتی ہے
جب دوا کا سب اثر جاتا رھتا ہے
جب تکلیف میں ہی بس شفا ہوتی ہے