در در پھرا کرتے ہیں آواروں کی طرح
گردش میں رہے ہر دم بنجاروں کی طرح
وہ شہر وہ گلشن وہ سماں کیا ہوا جناب
مستی میں رہتے تھے جہاں میخواروں کی طرح
بہار کیا گئی ہر پھول کا چہرہ اتر گیا
بھنورا بھی گنگنائے اوازاروں کی طرح
بلبل کا نغمہ ہوک ہوا باد خزاں سے
خاموش ہو کہ رہ گیا بےزاروں کی طرح
جیسے کوئی اپنے سائے سے بچھڑنے کے بعد
صحرا میں بھٹکتا ہے غم کے ماروں کیطرح
تھک ہار کے بیٹھا ہے تنہا ایک شاخ پر
مسیحائی کا منتظر ہو بیماروں کی طرح
ابر خزاں نے گلستاں کو خاک کردیا
اب کوئی بھی منظر نہیں نظاروں کی طرح
جب کرب تنہائی سے یہ چہرہ مرجھانے لگے
کھلتے ہیں تمہیں سوچ کے گلزاروں کے طرح
جب سے تیری یاد کا آنچل تھام لیا
کھلنے لگے مہکنے لگے بہاروں کی طرح
عظمٰی تیرے بیان کی شعلہ فشانیاں
لفظوں نے جلا پائی شراروں کی طرح