شفقتیں جا رہی ہیں خلاؤں کو
کرنا ہے کیا کسی کی اداؤں کو
چڑھتی دھوپ میں سایہ چاہا
قافلے مُڑ گئے صحراؤں کو
نصیب سے ہی ہمیں شکوے
کیا دوش دیں ہم دُعاؤں کو
خود سے ہیں شکا یتیں وفا کر کے
دیتے ہیں دُعائیں ان کی جفاؤں کو
بچھڑ گیا وہ دل کی سُنے بِنا
کس کا نام دیں تمناؤں کو
کوئی ملا نہ‘ کسی کے ہوئے نہ
لینا ہے ساتھ اُڑتی ہواؤں کو