شمع اس راہ پہ جلی ہے ابھی
رنج کی شب کہاں ڈھلی ہے ابھی
گل کھلے ہیں تمہاری آہٹ سے
آنکھ مہتاب نے ملی ہے ابھی
دل کہ جس کو فقیر کہتے ہیں
ایک اجڑی ہوئی گلی ہے ابھی
کاروبار جنوں کی گمنامی
شہرت عقل سے بھلی ہے ابھی
چاند اتریں گے رھگزاروں میں
رسم تابندگی چلی ہے ابھی
اب طبیعت بحال ہے ساغر
کچھ ذرا من میں بے کلی ہے ابھی