شور اک اٹھ رہا ہے اندر سے
کون یہ آ گیا ہے اندر سے
تیری فرقت اِک آگ ہے جاناں
جس نے جھلسا دیا ہے اندر سے
جستجو تیری گل گئی ہو گی
اس قدر جل چکا ہے اندر سے
مجھ میں اب چیختا نہیں کوئی
بس دھواں اٹھ رھا ہے اندر سے
اب مجھے سوجھتا نہیں کچھ بھی
اک خلا ہو گیا ہے اندر سے
لوٹ کر آ ہی جا کبھی خود میں
راستہ بھی کھلا ہے اندر سے