شوق آوارگی کو کیا کہیے
اب مری زندگی کو کیا کہیے
میں نے دیکھے ہیں مفلسوں کے نگر
میری آزردگی کو کیا کہیے
کفر نہ کر کے بھی سزا پائی
یا خدا بندگی کو کیا کہیے
اپنے ہاتھوں سے سر کو ہھوڑ لیا
ایسی دیوانگی کو کیا کہیے
جس سے حاصل نہ ہو خوشی کوئی
ایسی آسودگی کو کیا کہیے
میری دیوانگی ہہ ہنستے ہیں
ان کی فرزانگی کو کیا کہیے
حال دل پڑھ سکے نہ چہرے سے
آپ کی سادگی کو کیا کہیے