شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے
گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے
خارِ چمن تھے شبنم شبنم پھول بھی سارے گیلے تھے
شاخ سے ٹوٹ کے گرنے والے پتے پھر بھی پیلے تھے
سرد ہواوں سے تو تھے ساحل کی ریت کے یارانے
لو کے تھپیڑے سہنے والے صحراوں کے ٹیلے تھے
تابندہ تاروں کا تحفہ صبح کی خدمت میں پہنچا
رات نے چاند کی نذر کیے جو تارے کم چمکیلے تھے
سارے سپیرے ویرانوں میں گھوم رہے ہیں بین لیے
آبادی میں رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے
تم یونہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتہ
ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے
کون غلام محمّد قاصر بے چارے سے کرتا بات
یہ چالاکوں کی بستی تھی اور حضرت شرمیلے تھے