شوق ِجنوں میں ریزہ ریزہ بکھر کر بھی
درد ہے درماں نہیں جاں سے گزر کر بھی
مکیں نا مِلا کوئی دل ِ ویراں کے مکاں کو
بارہا دیکھ لیا ہم نے سنور سنور کر بھی
بھری دنیا میں آج بھی تنہا ہی کھڑے ہیں
ہم آتش ِعشق کے دریا میں اُتر کر بھی
جنوں کو خِرد کی بات سمجھ آئے کیوں
کہ ہجر ِراہ ہوتا نہیں جوہر،نکھر کر بھی
ہم خود ہی تیری تحویل میں آنے والے ہیں
اے بحر ِبے کراں اب تھوڑا صبر کر بھی
آورگی کا گلہ ہے تو لے چھوڑ دی ہم نے
دیکھ لیتے ہیں رضا اب زرا سُدھر کر بھی