آج کی رات بھی
نیند نے میری پلکوں پہ دستک نہ دی
رات چُپ چاپ کمرے میں ٹھیری رہی
کب کی خاموش یادوں کی سرگوشیاں
لطف کی ساعتیں، میری مدہوشیاں
سارے منظر غضب کے، بھلائے ہوئے
خودفراموشیاں
بند آنکھوں میں جلنے سلگنے لگیں
تھک گئیں کروٹیں
بچھ گئیں سلوٹیں
شور بننے لگیں یاد کی آہٹیں
”فیس بُک“ کے دریچے پہ میں آگیا
ہیلو اور ہائے کی کھڑکیاں کُھل گئیں
ایک مدت کے بچھڑے ہوئے یار دل دار ملنے لگے
وہ، بہت دور تھے جو
(سمندر کے اس پار)
ملنے لگے
پھر سے ملنے کے اقرار ملنے لگے
پوسٹیں دیکھتے، تبصرے دیکھتے
”نامہئ دوستی“ اور ”پیغام“ کے دائرے دیکھتے
میں نے بے خوابی کو اپنی بہلالیا
”فیس بُک“ شکریہ