اے ٹوٹتی رات کے ستارو
تم کتنے اُداس ہو رہے ہو
بُجھ گئی ہیں مری آنکھیں، مگر اے شامِ فراق
یہ دِئے اُن کے خیالوں میں تو جلتے ہوں گے
غرورِ عشق کو ضد ہے کہ تیرا عہدِ وفا
شکست کھا کے بھی تقدیس کھو نہیں سکتا
تخلیق کے ذوقِ جاوداں سے
انسان، خدا کا ترجماں ہے
بھوُلے گا نہ اے بہار، تیرا
چھُپ چھُپ کے کلی کلی میں آنا