اک مان سا تھا دل کو کہ تم ہو اپنے اور
تم ہی نے چھوڑ دیا اپنا عادی کر کے اک لاوارث کی مانند
سسکیاں لیتے میرے معصوم سے ارمان
تم نے روند دیئے پیروں تلے مٹی کی مانند
تم ہی تو تھے میرے خواب، خواب کی تعبیر بھی
وہ جو خواب تھا حسین رات کا، ٹوٹ گیا آسماں کے تارے کی مانند
میری دعاہے یہ تجھےعشق ہو،اورتجھے پتہ چلے
اورسوال کرےتُو خودسے۔کیوں کھینچا چلا جاتا کوئی کسی کی جانب
غزل کےآخری شعرمیں تیرا ذِکر نہ ہوگا ندیم
کہ تُوبھی عزیت سے دو چار نہ ہو اس شاعرِ ناساز کی مانند