آج دل پہ قابو نہیں ہو رہا
آج بہت بے بس ہوں میں
تیری یاد اتنا تڑپا رہی ہے
آج تنہائی لکھنے پہ مجبور ہوں میں
آج مجھے وہ بیتے پل
بہت یاد آرہے ہیں
آج تیرے خط تیرے لفظ بہت رلا رہے ہیں
اک احسان کردو
کچھ وقت کے لیے خود
کو مرا مہمان کردو
کہ تیرے روبرو ہو کر
بہت قصے سنانے ہیں
فراق میں جو بہے
نگاہوں سے وہ موتی گنوانے ہیں
بےخواب آنکھوں میں
پھر سے تیرے خواب سجانے ہیں
سونی سونی ہتیھلیوں
پہ حنا کے پھول کھلانے ہیں
تیرے ہجر نے جس طرح جلایا مجھے
اسی طرح قندیل کے گھر
جلانے ہیں
سو اے متاع جان
آج روبرو ہو جاؤ
محبت سے باوضو ہو جاؤ