شگاف سے پڑگئے ہیں
اندر ہی اندر ٹپک رہا ہوں
ضبط ٹوٹ گئی
اداب ِ محبت بھول رہا ہوں
قیامت صغری ہے دل کی بستی پر
مولا ! فرش سے عرش تک دیکھ رہا ہوں
نہیں معلوم کس طرح روک پایا ہے خود کو
میں تو جسم کے اندر جل رہا ہوں
ہے تمام اب صبر میری
بے بسی کا تماشہ کر رہا ہوں
نہیں ہوئی زیارت نصیب کی
اب سپنے برُے دیکھ رہا ہوں